بنیاد کچھ تو ہو

کوئے ستم کی خامشی آباد کچھ تو ہو
"کچھ تو کہو ستم کشو، فریاد کچھ تو ہو"
... بیداد گر سے شکوہء بیداد کچھ تو ہو
"بولو، کہ شورِ Ø+شر Ú©ÛŒ ایجاد Ú©Ú†Ú¾ تو ہو"

مرنے چلے تو سطوتِ قاتل کا خوف کیا
اتنا تو ہو کہ باندھنے پائے نہ دست و پا
مقتل میں+ کچھ تو رنگ جمے جشنِ رقص کا

رنگیں لہو سے پنجۂ صیاد کچھ تو ہو
خوں پر گواہ دامنِ جلّاد کچھ تو ہو
جب خوں بہا طلب کریں ،بنیاد کچھ تو ہو

گرتن نہیں ، زباں سہی، آزاد کچھ تو ہو
دشنام، نالہ، ہاؤ ہو، فریاد کچھ تو ہو
چیخے ہے درد، اے دلِ برباد کچھ تو ہو

بولو کہ شورِ Ø+شر Ú©ÛŒ ایجاد Ú©Ú†Ú¾ تو ہو
بولو کہ روزِ عدل کی بنیاد کچھ تو ہو

فیض اØ+مد فیض